Thursday 30 June 2011

مرزا غالب - دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستاۓ کیوں

دہر نہیں، حرم نہیں، دار نہیں، آستان نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پر ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں

جب ہو جمال دلفروز، صورت مہر نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں مُنہ چھپائے کیوں

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پاۓ کیوں

ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بیوفا سہی
جس کو ہو جان و دل عزیز، اسکی گلی میں جاۓ کیوں

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں

Saturday 11 June 2011

دستور زبان بندی

نہیں منّت کاش تاب شنیدان داستان میری
خاموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زبان میری

یہ دستور زبان بندی ہے کیسی تیری محفل میں 
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زبان میری

اٹھے کچھ ورق لالہ نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہے داستان میری

اڑا لی ہے کماریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فگان میری

ٹپک آئ شمع آنسو بن کہ پروانے کی آنکھوں میں
سراپا درد ہوں حسرت بھری ہے داستان میری

الہی پھر مزہ کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا
حیات جاوداں میری نہ مرگ ناگہاں میری

Friday 10 June 2011

عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں

ایک ہم ہیں کہ ہوے ایسے پشیمان کے بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کہ ارمان ہونگے

منّت حضرت عیسا نہ اٹھائیں گے کبھی
زندگی کے لئے شرمندہ احساں ہونگے

عمر تو ساری کٹی عشق بتاں میں "مومن"
اب آخری وقت میں کیا خاک مسلمان ہونگے

جنوں کے آثار

اک تو ہوتے ہیں محبّت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ دیوانہ بنا دیتے ہیں

وقت کتنا قیمتی ہے آج کل

ان کی یاد، ان کا غم، ان کی فقر
وقت کتنا قیمتی ہے آج کل

Wednesday 8 June 2011

وقت رخصت

وقت رخصت وہ چپ رہے عدم
لیکن آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل

رنجش کے پیام

خط لکھے ہوۓ رنجش کے پیام آتے ہیں
یہ کس کے نامے میرے نام آتے ہیں

شوق سے جانا

آنسو میرے تھم جایں تو شوق سے جانا
ایسے میں کہاں جاؤ گے برسات بہت ہے

Friday 3 June 2011

Masterpiece of Mirza Ghalib - مرزا غالب

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا سورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں

یاد تھی ہمکو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار تاق نسیاں ہو گئیں

تھیں بنا تو نش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئ کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی جو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن زندان ہو گئیں

سب رقیبوں سے ہون ناخوش، پر زنان مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کناں ہو گئیں

جو خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شامیں ہو فروزاں ہو گئیں

ان پریزادوں سے لینگے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر وان ہو گئیں

نیند اسکی ہے، دما اسکا ہے، راتیں اسکی ہیں
تیری زلفیں جسکے بازو پر پریشان ہو گئیں

میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستان کھل گیا
بلبلیں سن کر میرے نالے، گزالخوان ہو گئیں

وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یا رب دل کہ پار
جو میری کوتاہی قسمت سے مشغن ہو گئیں

بس کہ روکا میں نے اور سینے میں ابھین پاے بے پاے
میری آہیں بخیہ چاک گریبان ہو گئیں

وان گیا بھی میں تو انکی گلیوں کا کیا جواب
یاد تھی جتنی دعائیں، صرف دریبان ہو گئیں

جانفزا ہے بڑا، جس کے ہاتھ میں جام آگیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جان ہو گئیں

ہم مواہےحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترک رسم
ملتیں جب مٹ گئیں، اجزا ایمان ہو گئیں

رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کے آسان ہو گئیں

یوں ہی گر ہوتا رہا غالب، تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کی ویران ہو گئیں

69PZ5HYXX2NY

Wednesday 1 June 2011

کبر و غرور نفس

سب سے بڑا گناہ ہے کبر و غرور نفس
اے دوست اس گناہ کا مرتکب نہ ہو

قصم ہے خدا کی نہیں ممکن یہ احتساب
جب تک تیرا ضمیر تیرا محتسب نہ ہو

الفت نہ سہی نفرت ہی سہی

الفت نہ سہی نفرت ہی سہی
ہم یہ بھی گوارا کر لیں گے

اک یاد کسی کی دل میں لئے
جینے کا سہارا کر لیں گے

الفت یا نفرت

الفت نہ سہی نفرت ہی سہی، اس کو بھی محبّت کہتے ہیں
تو لاکھ چھپاہے بھید مگر، ہم دل میں سماۓ رہتے ہیں

(Note: this is actually a song by Rafi)

ShareThis