Friday, 3 June 2011

Masterpiece of Mirza Ghalib - مرزا غالب

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا سورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں

یاد تھی ہمکو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار تاق نسیاں ہو گئیں

تھیں بنا تو نش گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئ کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی جو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزن زندان ہو گئیں

سب رقیبوں سے ہون ناخوش، پر زنان مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محو ماہ کناں ہو گئیں

جو خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شامیں ہو فروزاں ہو گئیں

ان پریزادوں سے لینگے خلد میں ہم انتقام
قدرت حق سے یہی حوریں اگر وان ہو گئیں

نیند اسکی ہے، دما اسکا ہے، راتیں اسکی ہیں
تیری زلفیں جسکے بازو پر پریشان ہو گئیں

میں چمن میں کیا گیا، گویا دبستان کھل گیا
بلبلیں سن کر میرے نالے، گزالخوان ہو گئیں

وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یا رب دل کہ پار
جو میری کوتاہی قسمت سے مشغن ہو گئیں

بس کہ روکا میں نے اور سینے میں ابھین پاے بے پاے
میری آہیں بخیہ چاک گریبان ہو گئیں

وان گیا بھی میں تو انکی گلیوں کا کیا جواب
یاد تھی جتنی دعائیں، صرف دریبان ہو گئیں

جانفزا ہے بڑا، جس کے ہاتھ میں جام آگیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جان ہو گئیں

ہم مواہےحد ہیں، ہمارا کیش ہے ترک رسم
ملتیں جب مٹ گئیں، اجزا ایمان ہو گئیں

رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کے آسان ہو گئیں

یوں ہی گر ہوتا رہا غالب، تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کی ویران ہو گئیں

69PZ5HYXX2NY

No comments:

Post a Comment

ShareThis