Thursday, 30 June 2011

مرزا غالب - دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستاۓ کیوں

دہر نہیں، حرم نہیں، دار نہیں، آستان نہیں
بیٹھے ہیں رہگزر پر ہم، غیر ہمیں اٹھائے کیوں

جب ہو جمال دلفروز، صورت مہر نیمروز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں مُنہ چھپائے کیوں

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی، غم سے نجات پاۓ کیوں

ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بیوفا سہی
جس کو ہو جان و دل عزیز، اسکی گلی میں جاۓ کیوں

غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا، کیجئے ہائے ہائے کیوں

No comments:

Post a Comment

ShareThis